They say 'children should be seen and not heard', but 13-year-old Malala Yousufzai did not hold her peace when the crisis in Swat prevented her from receiving an education. Writing a diary to BBC Urdu with the pen name 'Gul Makai', Malala related her experience living during the siege in Swat. Unlike Anne Frank who wrote about her life during the holocaust, Malala, a famed children's rights activist, lived to see the fruit of her struggle.The purpose of her diary entries was to mark a clear divide between the peaceful people of Swat and the miscreants who unjustly oppressed and defamed them. For defending her motherland's reputation and fighting for children's rights and education, Malala was awarded the National Peace Prize by the state of Pakistan.Malala, who was named after a young Pashtun poet and warrior woman of the 19th century, was also the first Pakistani to be nominated for the International Children's Peace Prize. We hope this well-spoken and intelligent young lady's desire to enter politics and defend our people's civil rights is materialised.If a preteen can risk her life to preserve Pakistan's honour and fight for her community's right to prosper; the rest of us should take inspiration from her strength in overcoming the obstacles that prevent us from achieving our own dreams.Watch video of Chup Nahi Rehna, Zulm Nahi Sehna submitted by Faraz on Feb 29, 2012. This video of Chup Nahi Rehna, Zulm Nahi Sehna has total 4392 (four thousand three hundred and ninety-two) Views on Chup Nahi Rehna, Zulm Nahi Sehna .
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع سوات میں جب شدت پسندوں کی حکومت قائم ہوئی اور انہوں نے لڑکیوں کے اسکول دھماکوں سے اڑانے شروع کیے اور لڑکیوں پر اسکول جانے اور گھروں سے باہر نکلنے پر پابندی عائد کر دی توان میں مینگورہ شہر کی ایک تیرہ سالہ لڑکی ملالہ یوسف زئی بھی تھی۔ وہ پابندی کے باوجود اسکول گئی۔ اس دن اسکول میں حاضری اتنی کم تھی کہ ملالہ سے یہ سب کچھ برداشت نہ ہوسکا۔ ملالہ نے اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کا فیصلہ کرلیا۔شہر کے تمام اخبارات اور باقی ذرائع ابلاغ تک ملالہ کی آواز نہیں پہنچ سکتی تھی کیونکہ وہ تو خود شدت پسندوں کی دھمکیوں کے آگے بے بس تھے۔ملالہ نے ایک فرضی نام سے ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے کو خطوں کی شکل میں اپنی مشکلات اور حالات بتانے شروع کر دئیے۔ اس طرح باہر کی دنیا سوات کے اندر کی صورتِ حال سے آگاہ ہوئی۔ ملالہ یوسف زئی کے خطوط پر مشتمل اس کی یہ ڈائری اس دور کا آنکھوں دیکھا حال ہے۔ خاص طور سے ایک ایسی بچی کا آنکھوں دیکھا حال ہے جس کی عمر صرف تیرہ برس تھی ، اس کی تعلیم تباہ ہورہی تھی اور گلیوں میں جنگ لڑی جارہی تھی۔ اور وہ یہ سب کچھ کسی خوف اور خطرے کے بغیر اپنا فرض سمجھ کر کررہی تھی۔ملالہ یوسف زئی کی سوات میں قیام امن کی کوششوں پر حکومتِ پاکستان نے اسے نیشنل امن ایوارڈ دیا اور اس کے ساتھ پانچ لاکھ روپے انعام دیا۔ ملالہ کی ان کوششوں کی دھوم پوری دنیا میں پھیلی تو ملالہ کا نام انٹرنیشنل پیس پرائز کے لئے نامزد ہوا۔ ملالہ نے بتایا کہ وہ بچوں کے حقوق خاص طور پر لڑکیوں کے حقوق اور ان کی تعلیم کے لئے کام کرنا چاہتی ہیں۔ وہ بڑی ہو کر ایک سیاستدان بنیں گے۔ملالہ یوسفزئی کا کہنا ہے کہ تعلیم ہرشخص کا بنیادی حق ہے اور دنیا کی کوئی طاقت انہیں اس بنیا دی حق سے محروم نہیں کر سکتی۔
Faraz  |  Feb 29, 2012  |  4392 Views